أمهات المؤمنين والأطفال - امہات المؤمنین اور اولاد

   امہات المؤمنین اور اولاد

 




امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)
امہات المومنین
خدیجہ بنت خویلد
سودہ بنت زمعہ
عائشہ بنت ابی بکر
حضرت بنت عمر
زینب بنت خزیمہ
ہند بنت ابی امیہ
زینب بنت جحش
جویریہ بنت حارث
ریحانہ بنت زید
صفیہ بنت حی بن اخطب]
رملہ بنت ابوسفیان
ماریہ قبطیہ
میمونہ بنت حارث

اولادِمحمد
حضرت محمد کے بیٹے 
قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم                                         
حضرت محمد کی بیٹیاں
فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ
حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے
حسن _ حسین
بیٹیاں
زینب _ ام کلثوم
    معائنہ بحث ترمیم
ازواج مطہرات اور اولاد
Crystal Clear app k
dict.png تفصیلی مضمون کے لئے ملاحظہ کریں:
 امہات المؤمنین
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔

    حضرت خدیجہ:

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔

خدیجہ بنت خویلد


خديجہ بنت خويلد

ام المؤمنين، طاہرہ، ام ہند

ولادت

556ءمکہ مکرمہ

وفات

30 اپریل 619ء (63–64 سال)
مکہ مکرمہ

قابل احترام

اسلام: اہل سنت و جماعت، شیعہ اثناعشری، اباضیہ، دروز،
زیدیہ اور اور تمام مسلمان

مزار

جنت المعلیٰ، الحجون، مکہ مکرمہ

نسب

* والد: خويلد بن اسد
  • والدہ: فاطمہ بنت زائدہ بن اصم

خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء– وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں ۔

شجرہ نسب و خاندانی حالات

خدیجہ بنت خویلد اسد بن عبد العزیٰ بن قصی، قصی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جد امجد تھے۔ آپ کا تعلق قریش کی ایک نہایت معزز شاخ بنی اسد سے تھا، یہ خاندان اپنی شرافت و نجابت اور کاروباری معاملات میں ایمانداری اور راست روی سے عزت و شہرت کے بلند مقام پر فائز تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا۔ آپ کے والد ایک مشہور تاجر تھے اور بہت مالدار۔

ازدواجی زندگی

قتادہ کے قول کے مطابق، خدیجہ بنت خویلد کی پہلی شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی ابوہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی جس سے تین لڑکے ہند اور طاہر پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد ابوہالہ کی بھی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد آپ کی تیسری شادی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی۔ جن سے آپ کی اولاد بھی ہوئی، آپ کی وفات ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ شہر میں محمد صل للہ علیہ والہ کی زوجہ کی حیثیت سے ہوئی۔

حدیث میں ذکر

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدیجہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیر نے مختلف لوگوں سے روایت لکھی ہے[1] کہ عائشہ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سامنے خدیجہ کو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔ اس کے بعد عائشہ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ
ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے بطن سے مجھے اللہ تعالٰیٰ نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ میری کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(جو زندہ رہتی)[1]

جنت المعلیٰ میں واقع ایک قبہ جو سیدہ خدیجہ کی آخری آرام گاہ پر موجود تھا۔ (قبل 1926ء)

وفات

سیدہ خدیجہ نے 65 سال کی عمر میں ہجرت سے تین سال قبل 10 ماہِ رمضان بروز پیر 30 اپریل 619ء کو مکہ میں وفات پائی۔ سیدہ خدیجہ کی وفات مدینہ کی ہجرت اور نماز فرض ہونے سے پہلے اسی سال ہوئی جب ابوطالب کی وفات ہوئی۔ اس سال کو عام الحزن کا نام ملا۔ روایات کے مطابق انہیں جنت میں موتیوں سے تیار کردہ گھر ملے گا۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے ایک دن حاضر ہو کر خدیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدیجہ ہیں ان کا ساتھ اور کھانا پینا ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے گا کیونکہ اللہ تعالٰیٰ نے انہیں سلام بھیجا ہے اور میں بھی انہیں سلام کہتا ہوں۔ اس کے بعد جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجیئے کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایک بڑا خوشنما اور پرسکون مکان تعمیر کرایا ہے۔ جس میں کوئی پتھر کا ستون نہیں ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے حسن بن فضیل کے حوالے سے بھی بیان کی ہے۔ اسی روایت کو اسی طرح اسماعیل بن خالد کی روایت سے بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔[2]

اولاد

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد کی تعداد سات تھی جن میں تین بیٹے اورچار بیٹیوں کے نام ذيل میں دیے گئے ہيں :
بیٹے :
  1. القاسم
  2. عبداللہ
  3. ابراہیم
بیٹیاں:
  1. زینب بنت محمد
  2. رقیہ بنت محمد
  3. ام کلثوم بنت محمد
  4. فاطمہ زھرا
فاطمہ زہرا کے علاوہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام اولاد ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی۔

مآخذ

    حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا :

 ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔

    حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا :

 ان کے پہلے شوہر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔

    حضرت ام سلمہ ہند رضی اللہ عنہا :

آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
    حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوہر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
    حضرت جویریۃ بنت الحارث رضی اللہ عنہا :

 یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔

    حضرت میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ رضی اللہ عنہا :

 انہوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کیا۔

    حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا:

 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔

    حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا :

 آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوہر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔

    حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا:

 آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔

    حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا:

 ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاہر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔

    حضرت ماریۃ القبطیۃ رضی اللہ عنہا:

 بعض روایات کے مطابق آپ کنیزتھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔

No comments:

Post a Comment