Monday 8 February 2016

محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم

 

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بن عبد اللہ

احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی, خیر البری, نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
پیدائش  ربیع الاول 53ق ھ / اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق)
مکہ مکرمہ
وفات  ربیع الاول 10ھ / جون 632ء
مدینہ منورہ
معظم در  اسلام
بعثت  رمضان 12ق ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
مرکز قیام  مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ
نسب  اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے
والدہ آمنہ بنت وہب
والد عبدللہ بن عبدالمطلب
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ
رضاعی والد حارث بن عبد العزی
اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم
صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ
ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر، حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی بن اخطب، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال)

(570ء (54 ق‌ھ) یا 571ء (53 ق‌ھ) تا 632ء (10ھ)) دنیاوی تاریخ میں اہم ترین شخصیت کے طور پرنمودار ہوئے اور ان کی یہ خصوصیت عالمی طور (مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں جانب) مصدقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ 

 آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءاکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
  570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ 

بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
  
    ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)

 


      یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔


 

      570ء (54 ق‌ھ) والد کی وفات۔

    571ء (53 ق‌ھ) ولادت با سعادت مکہ میں۔
    576ء (47 ق‌ھ) والدہ کی وفات۔
    578ء (45 ق‌ھ) دادا کی وفات۔
    583ء (40 ق‌ھ) چند مرتبہ سفر شام پیش آیا۔
    595ء (28 ق‌ھ) شادی خدیجہ بنت خویلدرضي الله عنه سے۔
    610ء (12 ق‌ھ) نزول جبریل اور پہلی وحی اقراء کا نزول۔
    610ء (12 ق‌ھ) بعثت۔
    613ء (9 ق‌ھ) رسالت کے پیغام کے اخفاء کے بعد قریش کے سامنے اظہار۔
    615ء (7 ق‌ھ) ہجرت حبشہ۔
    616ء (6 ق‌ھ) بنی ہاشم کا معاشرتی بائیکاٹ۔
    618ء (4 ق‌ھ) یثرب کی خانہ جنگی۔
    619ء (3 ق‌ھ) بنی ہاشم کے بائیکاٹ کا اختتام۔
    619ء (3 ق‌ھ) عام الحزن، چچا ابو طالب اور زوجۂ محترمہ حضرت خدیجہ رضي الله عنه کا انتقال۔


    620ء (2 ق‌ھ) معراج۔


    622ء (0ھ) ہجرت مدینہ منورہ۔     

                    

    618ء (4 ق‌ھ) یثرب کی خانہ جنگی۔
    622ء (0ھ)  ہجرت مدینہ۔
    624ء (2ھ)  غزوہ بدر اور مسلمانوں کی فتح۔
    624ء (2ھ)  بنی قینقاع کی جلاوطنی۔
    625ء (3ھ)  غزوہ احد اور مسلمانوں کے مابین اختلاف اور ہزیمت۔
    625ء (3ھ)  بنی نضیر کی جلاوطنی۔
    627ء (5ھ)  غزوہ خندق اور مسلمانوں کی فتح۔
    627ء (5ھ)  غزوہ بنی قریظہ اور ان کی جلاوطنی۔
    628ء (6ھ)  صلح حدیبیہ میں قریش مکہ سے صلح۔
    628ء (6ھ) بیت عتیق میں مسلمانوں کی ادائیگیٔ نماز کے لیے قریش کی رضامندی۔
    629ء (7ھ)  غزوہ خیبر اور مسلمانوں کی فتح۔
    629ء (7ھ)  غزوہ موتہ اور مسلمانوں کی فتح۔
    630ء (8ھ)  فتح مکہ زادھا اللہ شرفاً وإجلالاً۔
    630ء (8ھ) غزوہ حنین اور مسلمانوں کی فتح۔
    630ء (8ھ) غزوہ طائف اور مسلمانوں کی فتح۔
    632ء (10ھ) غزوہ تبوک اور مسلمانوں کی فتح۔
    632ء (10ھ)  حجۃ الوداع۔

632ء (10ھ)  مدینہ منورہ میں رفیق اعلی سے جاملے۔

 



امہات المؤمنین
اولاد محمد

    قاسم
    زینب
    رقیہ
    ام کلثوم
    فاطمہ
    عبداللہ
    ابراہیم
اہل بیت
اہلسنت والجماعت
    امہات المؤمنین
    اولاد (القاسم وعبد الله وابراہيم وزينب ورقيہ وام كلثوم وفاطمہ)
    احفاد (حسن وحسين)
    عباس بن عبد المطلب
    جعفر بن ابی طالب
    عقيل بن ابی طالب
    علی ابن ابی طالب
شیعہ
    علی ابن ابی طالب
    فاطمہ بنت محمد
    حسن ابن علی
    حسین ابن علی
    ائمہ کرام

 

 

   632ء (10ھ)  مدینہ منورہ میں رفیق اعلی سے جاملے۔